| یونہی آلامِ ہجرِ جاں میں مجھے رہنے دو |
| میں کہہ چکا جو باتیں دوبارہ سے کہنے دو |
| یہ رگ و جاں بھی مجھ سے آزادی چاہ رہے |
| یہ خون جو میرا بہہ رہا ہے اسے بہنے دو |
| یہ زخم بچھڑ جائیں گے گر مرہم جو لگا |
| یہ ہی تو وفا دار ملے انکو یہیں رہنے دو |
| میں ناکامی کا اک بت ہوں نا مکمّل سا |
| ڈھا رہے ہیں لوگ اگر تو مجھے تم ڈھہنے دو |
| قائم رکھے آپ اپنے آفتاب کی تپش |
| وہ گہہ رہا مرا چاند ادھر اسے گہنے دو |
معلومات