دور رہتا بھی نہیں پاس آتا بھی نہیں
میرے محور سے نکل پائے ایسا بھی نہیں
آگے بستی ہے کوئی اور صحرا بھی نہیں
مڑ کے دیکھوں تو وہ شہرِ تمنا بھی نہیں
سامنا تجھ سے جو ہو، مجھ سے دل الجھے نہیں
عمر کے پچھلے پہر، حال ایسا بھی نہیں
مجھ پہ چھایا ہے وہ ابرِ مسلسل کی طرح
خشک گزرا بھی نہیں کھل کے برسا بھی نہیں
بزمِ عشاق میں ہم یوں بھی ممتاز رہے
تیرے مقبول نہیں، تیرے رسوا بھی نہیں
اول اول کا گماں، رفتہ رفتہ کا یقیں
وہ جو خوابوں میں نہیں آتا، ملتا بھی نہیں
کیسے مانوں میں شجر دشتِ الفت کا اسے
با ثمر بھی جو نہیں، جس کا سایا بھی نہیں
صوت ہی کی ہی سہی، شکل کا ہونا حبیب
تم نے سمجھی ہے یہ دنیا تو ایسا بھی نہیں

0
4