خواب ہو یا خیال ہو کمال ہو |
ہجر ہو یا وصال ہو کمال ہو |
۔ |
وسوسوں میں پڑی ہو خوامخوہ تم |
پیکرِ خوش جمال ہو کمال ہو |
۔ |
راحتِ من، سرورِ جاں، وقارِ شوق |
یا وجودی ملال ہو کمال ہو |
۔ |
دل مرے اتنے حادثوں کے باوجود |
کیا تم اب تک بحال ہو، کمال ہو |
۔ |
رُت خزاں کی ہو چودویں کا چاند ہو |
اس پہ تیرا خیال ہو، کمال ہو |
۔ |
تم مثالِ جمال ہو کمال ہو |
دشتِ دل کی غزال ہو کمال ہو |
۔ |
تمہیں کو شوق تھا سفر کا اور اب |
جسم و جاں تک نڈھال ہو کمال ہو |
۔ |
میں تو خود کا بھی نہیں ہوں اور تم مرے |
ہم سفر ، ہم خیال ہو کمال ہو |
۔ |
میں بس اک قصہ ہوں تمہارے ماضی کا |
اور تم میرے حال ہو کمال ہو |
. |
راتوں کو جاگتی ہو میری طرح تم |
یعنی کیا خوش خصال ہو کمال ہو |
' |
پہلے قربت کی ضد کی خود ہی اور اب |
شرم سے خود ہی لال ہو کمال ہو |
۔ |
خوابوں کے ساتھ خود بھی ریزہ ریزہ ہو |
اور تم اس پر نہال ہو کمال ہو |
۔ |
ساری بے چینیوں کا خود جواب ہو |
اور خود ہی سوال ہو، کمال ہوں |
۔ |
جھٹ سے چھٹ جائیں بدگمانیوں کے ابر |
پھر وہ رشتہ بحال ہو، کمال ہو |
۔ |
ساری بے چینیوں کا خود جواب ہو |
اور خود ہی سوال ہو، کمال ہوں |
۔ |
ڈھونڈتی پھرتی ہو مثال اپنی تم |
تم خود اپنی مثال ہو کمال ہو |
معلومات