| جہاں پر تھے جام بھی نا کافی |
| تیرا دیدار واں تھا کافی |
| جو نظریں ہوئی تھی چار اِک پل |
| تھا شور اِس دل میں مچا کافی |
| اٹھتے نا وہ میرے تذکرے پر |
| تھی مجھے اتنی سی وفا کافی |
| کبھی بھولے سے بھی نا پلٹے وہ |
| ہے کاٹی میں نے جفا کافی |
| کیوں عمر ہے پوری بسر کرنی؟ |
| لمبی ہے یہ تو سزا کافی |
| کسے پانی ہیں منزلِ عشق اب |
| ہمیں جستجو کا ہے مزا کافی |
| خطوں کو سارے کتر رہے ہیں |
| مجھ سے لگتا، ہیں خفا کافی |
معلومات