| شُہرہ میرا زُبانِ عام ہو گیا ہے |
| جس کا ڈر تھا وہی تو کام ہو گیا ہے |
| میری تھی سَر بلندی جس کہانی میں |
| اس فسانے سے وہ بدنام ہو گیا ہے |
| کچھ نے لی بھیک میں کچھ جینے کو سانسیں |
| کوئی بازار میں نیلام ہو گیا ہے |
| چرچے ہم وصل کے سنتے بہت تھے پر |
| کب شروع اور کہاں انجام ہو گیا ہے |
| صحرا آیا سمندر سے ہے ملنے اب |
| رستوں کو چند پل آرام ہو گیا ہے |
| خود میں محسوس کرنا تجھ کو چُپکے سے |
| میرا معمول صبح و شام ہو گیا ہے |
| بُلوا بھیجا تھا قاصد سے اُنہوں نے کل |
| میری تو عید اور انعام ہو گیا ہے |
| مِلنے آتے فقط ہیں مِؔہر اُن سے یاں |
| مجھ پے عاید تو یہ الزام ہو گیا ہے |
| ---------٭٭٭--------- |
معلومات