| بس وہی ہجرِ جاں کے غم ہیں |
| اس سے ہی آنکھیں نم ہیں |
| اس ویران سے کمرے میں |
| خوشیاں ساری بے دم ہیں |
| وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں مگر |
| نظریں ملتی ذرا کم ہیں |
| رو لیتے ہیں ذرا چھپ کے |
| روشنیاں ابھی مدھم ہیں |
| اس کے دے جانا نئے زخم |
| میرے زخموں کے مرہم ہیں |
| شکوے کرنے چھوڑ دئیے |
| اب کس بات پہ برہم ہیں |
| مسکرا لیں گے ٹھہر کر وہ |
| ابھی سامنے انکے ہم ہیں |
معلومات