| ہر کوئی ہی بے تاب لگتا ہے | 
| کار ہستی خراب لگتا ہے | 
| آنکھ میں اس قدر ہے پانی اب | 
| دل مرا زیر آب لگتا ہے | 
| کھائے ہوں جس نے دھوکے ہر پل ہی | 
| اس کو دریا سراب لگتا ہے | 
| بن ترے جو گزرتا ہے میرا | 
| مجھ کو وہ پل عذاب لگتا ہے | 
| تیری قربت میں بیتا ہر لمحہ | 
| ایک دلکش سا خواب لگتا ہے | 
| اک بے کلی سی ہے ہواؤں میں | 
| آنے کو انقلاب لگتا ہے | 
| میں نے کی ہیں جو نیکیاں اب تک | 
| سکوں ان کا ثواب لگتا ہے | 
    
معلومات