| ہوائے نفس میں کیسی عجب نادانی ہے |
| کہیں فریب، کہیں خواب کی کہانی ہے |
| یہ دل لگی نہیں آسان، اے مری جاں، سن |
| یہ عشق آگ کا دریا ہے، اور پانی ہے |
| میں ڈھونڈتا ہوں جنہیں، وہ مری خبر نہ لیں |
| یہ میری چاہ، مری جستجو، پرانی ہے |
| سمجھ رہا ہوں جسے زندگی کا حاصل میں |
| وہ میری ذات کا پنہاں کوئی معانی ہے |
| خرد سے کام نہ لینا، یہی تو نادانی |
| اسی میں درد ہے سارا، اسی میں فانی ہے |
| جو سوچتے ہیں کہ منزل قریب آ پہنچی |
| یہ ان کی بھول، یہ منزل تو لامکانی ہے |
| گزر نہ جائے کہیں عمر یونہی غفلت میں |
| حیات ایک مسافر ہے، آنی جانی ہے |
| ندیمؔ کیا بتلاؤں حالِ دل اپنا |
| فنا کے شہر میں اپنی بساط رانی ہے |
معلومات