| وہ سمجھتے ہیں کیا جفا کرکے |
| ٹوٹ جائیں گے ہم وفا کرکے |
| بھو ل ہے ان کی بھول پائیں گے |
| مجھ کو یوں غم سے آشنا کرکے |
| خوش رہوں گے وہاں پہ تم کیسے |
| یاں پہ طوفان غم بپا کرکے |
| جرم کر کے بنے ہو تم منصف |
| چل دیۓ ہو کہاں سزا کرکے |
| جانے ملتا ہے کیا سکوں ان کو |
| بے قراری کو یوں سوا کرکے |
| توڑ دے دل جو , کوئی انساں ہے |
| غم بھلاتے ہیں یہ دوا کر کے |
| سوزش ہجر نے ذیشان تجھے |
| رکھ دیا ہاۓ دل جلا کر کے |
معلومات