آرزو اپنی کہ اس کو جی بھر کے دیکھ لوں
نرگسی آنکھوں میں کچھ تو اتر کے دیکھ لوں
چاہتا ہے دل کہ منظر سحر کے دیکھ لوں
مرنے سے قبل آج اک بار مر کے دیکھ لوں
گھومتے ہی گھومتے آ گیا مقتل میں جب
کچھ ارادے بھی تو قاتل نظر کے دیکھ لوں
رخ پہ ڈالے زلف آرام فرما ہیں ابھی
کس طرح جلوے ابھی اس گہر کے دیکھ لوں
التجا ناکام ہوتی رہی تو کیا ہوا
التجا اک بار پھر کیوں نہ کر کے دیکھ لوں
راز کتنے ہیں چھپے اک تبسم میں وہاں
چلتے چلتے دیکھ لوں یا ٹھہر کے دیکھ لوں

46