| نشہ عِنان اس قدر تھا بڑھتا ہی چلا گیا |
| خلیفِہ عصر خود خدا میں ڈھلتا ہی چلا گیا |
| سبق ہمیں ملا اگرچہ، عِجز انکساری کا |
| مگر خُمارِ شُہرہ تھا، کہ بڑھتا ہی چلا گیا |
| جیا میں اپنا حق سمجھ کے، زندگی کی ساعتیں |
| رقم حسا بچہ میں تھیں، وہ کھلتا ہی چلا گیا |
| خدا ہے وہ تو کیا کریں، بٹھا ئیں سَر پے سجدہ دیں؟ |
| صنم شکن ہے دل بہت، پَلٹتا ہی چلا گیا |
| غضب سے پوچھا، "مَحو کیوں، نشانِ بَر جَبیں ہُوا"؟ |
| وہ داغ تھا غلامی کا، جو مِٹتا ہی چلا گیا! |
| ہے شُترِ ایماں ذُود حِس، سنبھال کر رکھو اِسے |
| بِدک گیا تو سمجھو یہ، بِدکتا ہی چلا گیا |
| کِتا بچہ مِرے عمل، کا روزِ حَشر یوں کُھلا |
| میں دیکھتا ہی رہ گیا، وہ پڑھتا ہی چلا گیا |
| سمجھ کے تیِرِ نیم کَش، خیال مِؔہر کہ گئے |
| میں روکتا ہی رہ گیا، وہ چلتا ہی چلا گیا |
| ٭٭٭------٭٭٭ |
معلومات