| کبھی فرشتہ، کبھی شیطان ہے آدمی |
| کیا کیا نہ اس کے اندر نہاں ہے آدمی |
| کرتا ہے خود ہی پیار، خود ہی ہے سراب میں |
| اپنے ہی جال کا وہ گمان ہے آدمی |
| اک بات پر وفا، تو اک بات پر جفا |
| کتنے بدلتا رنگِ بیاں ہے آدمی |
| کہنے کو زندگی ہے فقط مختصر سی شے |
| صدیوں کی داستاں کا نشاں ہے آدمی |
| آباد بھی کرے ہے، تو برباد بھی کرے |
| عمران و ویرانی کا جہاں ہے آدمی |
| جو وقت پر قریب تھا، اب دور ہو گیا |
| جیسے کہ ایک خوابِ گراں ہے آدمی |
| چاہے جو کچھ بھی، کر نہیں پائے ہے وہ مگر |
| مجبور بھی ہے اور نہاں ہے آدمی |
| کس سے کہو کہ اس کو ہے کیا کیا چھپا ہوا |
| اک رازِ سر بہ مہر کی دکاں ہے آدمی |
| کیا کیا نہ اس میں ہے، نہ کوئی جان پائے گا |
| خود اپنے آپ سے ہی ہراساں ہے آدمی |
| ندیمؔ کیا کریں اس کی فطرت کی بات ہم |
| خود ہی سے آشنا، خود ہی سے انجان ہے آدمی |
معلومات