| یہ فلسفہ بود بَست کیا ہے کہ دم بدم مستحل ہو جائے |
| یہی عناصر کی زندگی ہے کہ کل میں جز منتقل ہو جائے |
| تلاش منزل کو موت جانو خیال منزل نہ دل میں رکھنا |
| یہ موت کیا ہے سکون دل ہے سکوں میں جو مستقل ہو جائے |
| تو ٹوٹ کر ٹوٹ جائے پھر سے ثبات ہے بے قرار دل کو |
| ہے زندگی کا پیام خاکی تو نور میں مندمل ہو جائے |
| چراغ دل کا یونہی جلے گا تو زندگی بھی رواں رہے گی |
| خدا کرے نور حق سے جلنا بجھے تو پھر مشتعل ہو جائے |
| تو مجھ میں اس طرح سےہے شامل وجود میں ہوں تو روح تم ہو |
| جو بھی محبت میں جاوداں ہو مری طرح مضمحل ہو جائے |
| فساد کو تم زوال جانو کہ زندگی تو عروج میں ہے |
| کہ فلسفہ بود و بِست کو گر تو جان لے منفعل ہو جائے |
معلومات