| میں جو ہوں خزاؤں کا آشیاں |
| مری اجڑی اجڑی ہیں بستیاں |
| وہاں ایسی کوئی بہار ہو |
| مری ذات میں تو شمار ہو |
| وہ شمار ایسا شمار ہو |
| مری ہر نسوں میں خمار ہو |
| ترے سپنے میں یو بنوں کہ بس |
| جو قریب ہوں تو قریب بس |
| جو بچھڑ بھی جاؤں تو پاس تم |
| مری دوریوں سے اداس تم |
| تو رہے یوں ملنے کی آس میں |
| مرا نام ہو تری سانس میں |
| تو رہے نا اپنے حواس میں |
| ہے مگر حقیقتِ مختصر |
| کہ یہ خواب ہوتے ہیں بے اثر |
| جو بچھڑ گیا وہ بچھڑ گیا |
| مرا آشیاں جو اجڑ گیا |
| اسے اجڑ اجڑا ہی رہنے دو |
| مجھے بکھرا بکھرا ہی رہنے دو |
| کہ بکھر کے جڑنا عذاب ہے |
| یونہی خود سے لڑنا عذاب ہے |
| مجھے آئینوں سے گلا نہیں |
| مگر خود کا دکھنا عذاب ہے |
| میں نکلنا گھر سے ہوں چھوڑا وا |
| کہ یوں روز ہنسنا عذاب ہے |
معلومات