| “الٰہی ترکِ اُلفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں” |
| جو سایہ بن کے چلتے تھے، وہ منظر یاد آتے ہیں |
| نگاہوں میں جو بستے تھے، وہ کیوں محشر میں جائیں گے |
| جو دل کا چین چھینے تھے، وہ کیونکر یاد آتے ہیں |
| سکونِ دل، رفیقِ جاں، تھے دلبر کی طرح پیارے |
| جو دل کو زخم دے جائیں، وہ پتھر یاد آتے ہیں |
| جہاں امید روشن تھی، وہاں تاریکی چھائی ہے |
| وہی لمحے جو کھو جائیں، مقدر یاد آتے ہیں |
| خفا دنیا سے ہو کر بھی سکوں دل کو نہیں ملتا |
| کہ اپنا عکس جب دیکھیں تو محشر یاد آتے ہیں |
| حقیقت کے سفر میں ہم ہی خوابوں کے مسافر تھے |
| جو ٹوٹے خواب سمجھائیں، وہ رہبر یاد آتے ہیں |
| جہاں ہنستے تھے سب لمحے، وہاں سناٹا چھایا ہے |
| وہی زنداں جو دل میں ہو، وہ اندر یاد آتے ہیں |
| یہ دنیا فانی منزل ہے، یہ سوچا تھا مگر پھر بھی |
| جو رشتے توڑ جاتے ہیں، وہ اکثر یاد آتے ہیں |
| یہی دستورِ ہستی ہے، فنا ہر چیز کا حصہ |
| جو لمحے وقت کھا جائے، وہ دفتر یاد آتے ہیں |
| جو رہبر بن کے آئے تھے، مگر رہزن ہی تھے افری |
| وہ اپنی چال دکھلائیں تو خنجر یاد آتے ہیں |
معلومات