| جو درد چُھپا رکھا تھا دل کے چھالوں میں |
| عیاں بھی ہوا تو ہوا آنکھوں کے پیالوں میں |
| کچھ ایسی ہوئی سِیہ راتوں سے فُرقت میں الفت |
| کہ مری تو آنکھ ہی دکھتی ہے اب اُجالوں میں |
| فرصت ہی نہ ملی کہ جی لیتا کچھ اپنے لئے |
| پھنس کے رہ گیا ہوں غمِ ہستی کے جالوں میں |
| یہ زندگی ایسے مقام پہ آ کے ہے اب ٹھہری |
| کہ میں خود کو ڈھونتا ہوں اپنے ہی خیالوں میں |
| اے زندگی تیرے سوالوں کو سُلجھاتے ہوئے |
| بن چکا ہوں خود بھی سوال میں اُلجھے سوالوں میں |
معلومات