| کچھ بھی مجھ سے جُدا نہیں ملتا |
| آپ اپنے میں کیا نہیں ملتا |
| بخوشی مَر رہا ہوں میں کیوں کہ |
| بے مَرے کے خدا نہیں ملتا |
| لاکھ ملنے کا ایک ملنا تھا |
| وہ جو ملتے تو کیا نہیں ملتا |
| ایک ابلیس میں بھی بن جاتا |
| گر تیرا آسرا نہیں ملتا |
| سبھی مخبر ہیں تیری ہستی کے |
| پر کوئی آشنا نہیں ملتا |
| اپنی خوشیاں لٹا دیا تجھ پر |
| ورنہ منشا تیرا نہیں ملتا |
| اے ذکیؔ یوں تو مل گیا ہے تو |
| ایک بندہ کھرا نہیں ملتا |
معلومات