کچھ بھی مجھ سے جُدا نہیں ملتا
آپ اپنے میں کیا نہیں ملتا
بخوشی مَر رہا ہوں میں کیوں کہ
بے مَرے کے خدا نہیں ملتا
لاکھ ملنے کا ایک ملنا تھا
وہ جو ملتے تو کیا نہیں ملتا
ایک ابلیس میں بھی بن جاتا
گر تیرا آسرا نہیں ملتا
سبھی مخبر ہیں تیری ہستی کے
پر کوئی آشنا نہیں ملتا
اپنی خوشیاں لٹا دیا تجھ پر
ورنہ منشا تیرا نہیں ملتا
اے ذکیؔ یوں تو مل گیا ہے تو
ایک بندہ کھرا نہیں ملتا

7