| وقتِ رخصت مری ماں نے مرا ماتھا چوما |
| منزلوں نے تبھی بڑھ کر مرا تلوا چوما |
| دی مؤذن کو دوا نیند کی اور پھر کل شب |
| ہم نے جی بھر کے تمہیں خواب میں دیکھا چوما |
| جس طرح قیمتی شے کو کوئی مفلس دیکھے |
| آنکھوں آنکھوں میں تجھے ہم نے سراہا ، چوما |
| ہم نے سوچا تھا کہ سیرابی میسر ہوگی |
| تشنگی اور بڑھی یار کو جتنا چوما |
| ایک مصرعے میں سنو وصل کا پورا قصہ |
| از عشاء تا بہ سحر بس اسے چوما چوما |
| اس طریقے سے نہیں پیار جتایا مجھ سے |
| جس طریقے سے ہے اس نے مرا بچہ چوما |
| یہ بدن دشت سے گلشن ہوا آخر کیسے |
| آنکھ چومی ہے کسی کی کہ ہے دریا چوما |
| میری آنکھوں کے اجالوں کا سبب ہے اتنا |
| نام سنتے ہی محمد کا ، انگوٹھا چوما |
| ٹھیک ہونے نہ دیا زخمِ محبت آسیؔ |
| ہم نے تا عمر اسے دل سے لگایا چوما |
معلومات