| کبھی در سے کبھی دیوار سے الجھی ہوگی |
| رات بھر میری طرح وہ بھی نہ سوئی ہوگی |
| / |
| اب اجازت دے مجھے اے مرے ہم دم مرے دوست |
| میری تنہائی مرے گھر میں اکیلی ہوگی |
| / |
| آتی ہے اس کے بدن کی یہ کہاں سے خوشبو |
| دیکھ لو یہ مری کشمیر کی وادی ہوگی |
| / |
| مر گئے ہوں گے سبھی شکوے اسے مجھ سے جو تھے |
| جب کبھی وہ بھی اسی درد سے گزری ہوگی |
| / |
| اب اٹھو بند کرو دفترِ جادوئے غزل |
| وہ پری زادی کہیں سے ابھی آتی ہوگی |
| / |
| اکتا کر ساری کتابوں سے وہ مہ زادی اب |
| جانے کس دھیان میں دیواروں کو پڑھتی ہوگی |
معلومات