حُسن گر بے نقاب ہو جائے
عِشق تو لا جواب ہو جائے
اتنی مَستی ہے اُن کی آنکھوں میں
پانی دیکھیں شَراب ہو جائے
گَر وہ آ ئیں ہمارے آنگن میں
اُن پہ قُرباں شَباب ہو جائے
وہ لگائیں جو مُجھ کو سینے سے
مُبتَدی باریاب ہو جائے
لے کے بیٹھے قلم وہ ہاتھوں میں
لَوح میری کتاب ہو جائے
نورِ وَحدت ہے جِن کے چہروں پر
دِید اُن کی ثواب ہو جائے
اِک سوارِ بُراق کی خاطر
میری گردن رِکاب ہو جائے
ذکرِ حق بے حِساب کرنے سے
دُور فکرِ حساب ہو جائے
تیرے صدقے غُلام تیرا بھی
خادمِ بُو تُراب ہو جائے

0
27