| اب جس کو جو کہنا ہے، وہ کہہ کر ہی رہے گا |
| جب شہر میں سچ کا کوئی پردہ ہی نہ ملے |
| یہ اہلِ وفا سب ہیں، مگر ایک حقیقت |
| اُن اہلِ محبت کی طرف دیکھنا ہی نہ ملے |
| ہم نے تو بہت سوچ سمجھ کر کہا لیکن |
| اب ہم سے کوئی پوچھنے والا ہی نہ ملے |
| یہ شہر عجب ہے کہ یہاں سچ کی سزا ہے |
| اِک سچ کی بنا پر کوئی رُسوا ہی نہ ملے |
| منصف بھی وہی اور وہی اہلِ عدالت |
| اِن ظالموں سے کوئی فریادی ہی نہ ملے |
| دکھ اپنا کہوں کس سے، نہ کچھ مجھ کو بتاؤ |
| جب دوست کوئی ساتھ میں ایسا ہی نہ ملے |
| ہم سوچتے رہتے ہیں کہ سچ بولنے والے |
| اُٹھ جائیں یہاں سے کوئی وعدہ ہی نہ ملے |
| اس دورِ ستم میں تو وہ دن بھی ہے ندیم |
| سچ کہنے پر ہم کو کوئی اپنا ہی نہ ملے |
معلومات