بات گر بگڑے تو پھر جھک کے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے
میرے مولا کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
کہ تہی دست مرے در سے سوالی جائے
اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے
مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے
شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے
سب کے ہونٹوں پہ ہنسی اور تبسّم بکھرے
ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے
کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو
کیوں نہ مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے
چاک ہر روز گریبان سحر ہوتا ہے
بڑھ کے دستار اُجالوں کی سنبھالی جائے
خلعت فاخرہ پہنے بھی برہنہ ہیں جو
اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے
اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا مر کر بھی مرا
حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے
کرکے ناداروں کی ،غرباء کی مدد آؤ سحؔر
بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے

2
149
وااااہ واہ۔۔
خوب۔۔ بہت خوب۔۔

0
متشکرم

0