| عشق کو خاک جب اِدھر دیکھا |
| آب کو آگ میں اُدھر دیکھا |
| کُل بدن آتشِ حسد میں ہے |
| اف تڑپتا میں نے جگر دیکھا |
| اجنبی تھا، کسے پڑی ہو گی |
| انہی لوگوں کا اب مکر دیکھا |
| اک قیامت گزر گئی جیسے |
| غیر کا لب پہ جو ذکر دیکھا |
| دھند سی بڑھ رہی ہے اب اتنی |
| شہر اُداسی میں بھر نظر دیکھا |
| اب کہ سردی میں دن گنیں گے ہم |
| فقر جامِ غمِ دہر دیکھا |
| کیا بچا دیکھنے کو ہے کاشف؟ |
| سامنے وہ ہی تھا، جدھر دیکھا |
معلومات