| شہرِ مُرشِد کی طرف اب چل پڑا ہے قافلہ |
| خوش ہیں کتنے دیکھ لو سب چل پڑا ہے قافلہ |
| کیا بتاؤں دل کے میں جذبات کا عالَم تُمھیں |
| آنکھ نَم خاموش ہیں لب چل پڑا ہے قافلہ |
| خوب ہوں گے وَاں ُمیَسؔر جام اُن کی دید کے |
| میں پِئوں گا ہاں لَبا لب چل پڑا ہے قافلہ |
| مُسکراہٹ اُن کی دیکھوں بھول جاؤں غم سبھی |
| دور ہو گی رنج کی شب چل پڑا ہے قافلہ |
| جب نظر اُن کی پڑے گی دل پہ میرے دوستو |
| زنگ اس کا اُترے گا سب چل پڑا ہے قافلہ |
| اپنے ہیں عطار مُرشِد ہے کَرَم سرکار کا |
| اور تیرا فضل یا رب چل پڑا ہے قافلہ |
| باندھ زیرکؔ تُو بھی اپنا جلد ہی رختِ سفر |
| ختم کر اپنا تَذَبذَب چل پڑا ہے قافلہ |
معلومات