یہ صحرا یہ کھنڈر آباد نہیں کرتا
وہ زود فراموش اب مجھے یاد نہیں کرتا
/
صیاد بھی اب مجھ کو آزاد نہیں کرتا
اور میں بھی رہائی کی فریاد نہیں کرتا
/
برباد وہ کرتا ہے مجھے روز نئے ڈھنگ سے
لیکن اچھے سے کبھی برباد نہیں کرتا
/
سن اے دلِ رم تو اپنی یاد میں ہی رہیو
اس شہر میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا
/
اے صحرا نشینوں زرا اس گل سے پوچھو کہ اب
کیوں اپنی خوشبو سُپُردِ باد نہیں کرتا
/
آتی ہے جس صحرا سے یہ الجھن یہ اشعار
سیر اس صحرا کی مگر نقاد نہیں کرتا
/
مجھے بھی نیند آ گئی اب ایسی خاموشی میں
وہ بستہ لب بھی کچھ ارشاد نہیں کرتا
/
روز اب کم کرتا جاتا ہوں اپنے آپ سے کچھ
میں اپنے آپ میں کچھ ایزاد نہیں کرتا
/
بڑا سونا ہے اب وہ شیریں کا شہرِ سحر
اب حسن وہاں کسی کو فرہاد نہیں کرتا

0
33