کوئی پھول دل کا، جو کملایا تھا کل
وہ لگتا ہے تازہ، وہی آج بھی ہے
*
جو سر پر تھا سایہ، کسی مہر جاں کا
وہ آنکھوں میں بادل، وہی آج بھی ہے
*
جو دل کا مقدر، لکھا جا چکا تھا
وہی دل میں غم ہے، وہی آج بھی ہے
*
بہت دردِ دل کو، ستم سے چھپایا
مگر زخم دل کا، وہی آج بھی ہے
*
وفا کا جو پرچم، کبھی ہم نے رکھا
وہ دل پر فسوں کا، وہی آج بھی ہے
*
بہت ہم نے چاہا، بہت کچھ گنوایا
مگر اس گماں کا، وہی آج بھی ہے
*
غموں نے ہمیں اب، بہت آزمانا
وہ دل پر جفا کا، وہی آج بھی ہے
*
'ندیم' اب یہ لکھ لے، 'ندیم' اب یہ سن لے
غمِ ہجر جاں کا، وہی آج بھی ہے

0
3