سینے میں لگی آگ کو دھکائے ہوئے ہیں
گلشن میں مرے پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
ہنگامہ ہے کوچے میں محبت کے نمایاں
اور ہم ہیں کہ آزردہ سے جھنجھلائے ہوئے ہیں
آنکھوں میں تصور ہیں ، بسی رات ، جھروکے
پر چاند ستارے سبھی گہنائے ہوئے ہیں
اب ہوش میں لائے کوئی ہم کو نہیں لازم
چوٹیں کوئی ہم ایسی کئی کھائے ہوئے ہیں
شاید کہ گزر ہو کبھی اس گھر سے صبا کا
یہ سوچ کے ہم خود کو بھی سمجھائے ہوئے ہیں
ہے عید کا دن اور بپا جشن ہے شاہد
ہم ہیں کہ بھرے شہر میں اکتائے ہوئے ہیں

0
13