| فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
| لائیے گل سے لطافت جائیے آ جائیے |
| قطرۂ مے بس کہ حیرت جائیے آ جائیے |
| دل میں اُتری ہے محبت جائیے آ جائیے |
| ذکر اب ہے یار عادت، جائیے آ جائیے |
| اشک کے ہیں جال حکمت جائیے آ جائیے |
| زندگی ہے محض حسرت، جائیے آ جائیے |
| دل نے دیکھی ہے حقیقت بھی کئی انداز سے |
| چشم کہتی ہے زیارت جائیے آ جائیے |
| اشک بن کر جو برستا ہے دلِ مضطر سے ہی |
| اُس میں پائی ہے طہارت جائیے آ جائیے |
| خواب کہتا ہے بشارت پر بھی حاصل غور ہو |
| ذکر کہتا ہے عبادت جائیے آ جائیے |
| ہوش میں رہ کے نہ سمجھے کوئی اس جذبے کو تو |
| بے خودی دے استعانت جائیے آ جائیے |
| خاکِ در سے جو ملے وہ نورِ قسمت ہے مری |
| میں نے پائی یہ سعادت جائیے آ جائیے |
| ارشدؔ اُس در کی حقیقت جانتے ہو خوب ہی |
| دل کی ہے بس یہ ضرورت جائیے آ جائیے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات