| آسماں ہے دسترس میں ، ہے زمیں پر دسترس |
| کیا کروں محبوب کو بھی ہے نہیں پر دسترس |
| خود کسی کی دسترس میں یہ کبھی آتا نہیں |
| ہے مکانِ دل کو لیکن ہر مکیں پر دسترس |
| ایسا لگتا ہے کہ جیسے دسترس میں چاند ہے |
| آج کل ہے ایک ایسی مہ جبیں پر دسترس |
| ہائے حسرت اک غزل لکھوں میں اس کے حسن پر |
| وائے ناکامی نہیں ہے جس حسیں پر دسترس |
| اس سہولت سے اذیت وہ مجھے دیتا رہے |
| ہو نہ میری یار مارِ آستیں پر دسترس |
| پاس وہ بیٹھا رہے اتنا ہی کافی ہے ہمیں |
| گو نہ ہرگز ہو ہماری ہم نشیں پر دسترس |
معلومات