کرے کام کوئی اور لیکن نام کسی اور کا
الزام کسی پہ لگے الزام کسی اور کا
غیروں کے زیرِ سایہ شرطِ معافی پر
اپنوں کے خوں سے سینچا وہ نظام کسی اور کا
اتنا ہے خوف اسے انصاف پسندوں سے
کہ وہ نام جپے یاں پہ صبح و شام کسی اور کا
گنگا جمنی تہذیب کے ہم پالے ہوئے ہیں
ہو گا نہ کبھی ہم سے بد کام کسی اور کا
اس کی نہ کوئی تحریر مگر اپنی زباں سے
وہ لکھا ہی قول پڑھے سرِ عام کسی اور کا
دستور کو مانے کہاں قانون پرے کر کے
جنتا کو غلام بنائے غلام کسی اور کا
سچ بولنے والوں کا انجام اسیری کیوں
بے گناہوں کے سر کیوں ہے انجام کسی اور کا
چلتا رہے گا ظلموں کا سلسلہ یہ کب تک
ظالم کے گلے کب تک انعام کسی اور کا
روٹی نہیں ملتی بھوک سے مر ہی جاتے سب
ان سب کا پیٹ بھرے لے کے نام کسی اور کا

0
42