| تاریخ کے ورق پہ وہی نام لکھے گا |
| جو ظلم کے خلاف علم لے کے اُٹھے گا |
| ہر دور کے یزید سے تم کو ہی لڑنا ہے |
| اب کوئی بھی فرات کنارے نہ اترے گا |
| تُو رات کی سیاہی مقدر نہ مان لے |
| ان ہی اندھیروں سے کوئی سورج بھی نکلے گا |
| نفرت کی آگ میں جو بھی جلا، وہ مٹ گیا |
| بس نام ہے وفا کا جو آخر میں چمکے گا |
| کب تک دریدہ وقت کو ہم دیکھتے رہیں |
| اُٹھو گے تو یہ طوفاں بھی رستہ بدل لے گا |
معلومات