| یوں ہی ظلم ڈھائیں گے آخر کہاں تک |
| نہیں باز آئیں گے آخر کہاں تک |
| ہمیں اب تو آواز بننا پڑے گا |
| سکوتوں میں جائیں گے آخر کہاں تک |
| ستم کی گھڑی ہے، سکوتِ صدا ہے |
| ستم سے ڈرائیں گے آخر کہاں تک |
| جو لہجے میں بارود سا بولتا ہے |
| وہ نفرت چھپائیں گے آخر کہاں تک |
| خدا کا بھی انصاف آخر تو ہونا |
| یہ خود کو بچائیں گے آخر کہاں تک |
| جلا کر بھی دیکھا ہمیں ہر طرف سے |
| یہ شعلے جلائیں گے آخر کہاں تک |
| سہارا جو چھینیں گے ہر بےکسوں کا |
| یہی تخت پائیں گے آخر کہاں تک |
| یہ اتنا جو ارشدؔ عدو حکمراں ہے |
| انہیں یہ بتائیں گے آخر کہاں تک |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات