| جلوے کچھ ہوش رُبا زیرِ قبا رہتے ہیں |
| ہم فقط صورت و سیرت پہ فدا رہتے ہیں |
| خوشیوں کے جگنو پکڑنے میں سدا رہتے ہیں |
| خود غرض لوگ بدستور خفا رہتے ہیں |
| توڑ کر دل کو وہ جب ہم سے خفا رہتے ہیں |
| کتنے ہنگامے دل و جاں میں بپا رہتے ہیں |
| شوقِ محبوب ہے ہم الجھے رہیں گرہوں سے |
| سختی سے باندھ کے وہ بندِ قبا رہتے ہیں |
| اب فقط مکرو ریا جوروجفا ہے ہر سو |
| اب کہاں لوگ جو پابندِ وفا رہتے ہیں |
| جیتے جی تجھ سے نہ بچھڑیں گے کبھی بھی جاناں |
| کیا کبھی گوشت سے ناخن بھی جدا رہتے ہیں |
| کیسے پھر سچا خدا تجھ کو ملے گا اے سحاب |
| سینکڑوں دل میں ترے جھوٹے خدا رہتے ہیں |
معلومات