| دنیا ہے حسیں اس سے تو انکار نہیں ہے |
| طیبہ سا حسیں کوئی بھی گُل زار نہیں ہے |
| رحمت میں ہے ڈُوبا ہُوا سارا ہی مدینہ |
| وہ کون ہے جو طالِبِ دیدار نہیں ہے |
| دل میں ہو تڑپ گر شَہِ ابرار بُلائیں |
| حاجت بھی سفینے کی تو درکار نہیں ہے |
| مارا ہے دُکھوں نے تو کرو یاد اُنھی کو |
| سلطانِ مدینہ سا تو غم خوار نہیں ہے |
| محبوبِ اِلٰہی ہے لَقَب میرے نبی کا |
| مخلوق میں سرکار سا دلدار نہیں ہے |
| اللہ نے دیے ہاتھ میں ان کے تو خزانے |
| اِن سا بخُدا مالِک و مُختار نہیں ہے |
| زیرکؔ ہے سُوالی تو شَفاعَت کا ہی آقا |
| اِس کے سِوا کُچھ اور تو درکار نہیں ہے |
معلومات