| راہ میں ایک کنارے پہ کھڑے سوچتے ہیں |
| مجھ سے واقف ہیں کئی لوگ جو ان دیکھے ہیں |
| کسی امید کسی راز کسی ساز کی طرح |
| میلوں کے فاصلے سے صحبتیں آباد ہوئیں |
| دور ویرانے سے آتی ہوئی آواز کی طرح |
| میرے ہمراہ مرے دوست مرے جان نشیں |
| کہاں آباد ہو تم؟ دور، بہت دور کہیں |
| نام الگ شہر الگ آس الگ پیاس الگ |
| ہم سفر غم میں، پریشانی میں ایک |
| آہ ایک آہ میں لپٹے ہوۓ گھبراۓ ہوۓ |
| آرزوں پہ مری طرح پشیمانی میں ایک |
| گردشِ وہم و گماں کے یہ تھکاۓ ہوۓ لوگ |
| کسی جھانسے میں کسی دھوکے میں آۓ ہوۓ لوگ |
| پھر انہیں بھی کبھی تقدیر کرے گی مجبور |
| پھر انہیں بھی یہاں سے لوٹنا ہے گھر کسی روز |
| پھر انہیں بھی تو بہانہ کوئی یاد آۓ گا |
| پھر انہیں بھی تو بچھڑ جانا ہے آخر کسی روز |
| دشت در دشت بھٹکتے ہوۓ ہوتے ہو نراش |
| زیبؔ تم چھوڑ بھی دیجو کسی رہرو کی تلاش |
| راہ میں ایک کنارے پہ کھڑے سوچتے ہیں |
| گرتے پتوں کی طرح زرد پڑے سوچتے ہیں |
| مجھ سے واقف ہیں کئی لوگ جو ان دیکھے ہیں |
معلومات