| ملتی ہے اس کی ذات کو شمشیرِ آگہی |
| جس شخص کی کتاب سے رہتی ہے دوستی |
| اہلِ جنوں ، خرد سے جو کرتے ہیں بے رخی |
| دشتِ جنوں میں اُن کی بھٹکتی ہے زندگی |
| رنج و الم چھپا کے ہنسی بانٹتی رہی |
| ماں کے وجود سے تھی مرے گھر میں ہر خوشی |
| عاشق مزاج تھے کبھی کرتے تھے دل لگی |
| ٹوٹا جو دل تو رہ گئی سب عاشقی دھری |
| ہم پر طلسم کر رہی تھی حسن کی پری |
| مسحور ہو کے ہم سے ہوئی خوب شاعری |
| مجبور کر رہی تھی ہمیں اسکی دلکشی |
| حد سے گزر کے اس سے محبت کریں کبھی |
| وارفتگیٴِ حسُن تھی ہر حد سے بڑھ رہی |
| آشفتگی سحاب کی حد سے نہیں بڑھی |
معلومات