| کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا |
| سوچا نہ کیجئے ہمیں دیکھا نہ کیجئے |
| عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی |
| اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے |
| راتوں کے خوف میں وہ کہے تھے یہ ایک دن |
| تارو یوں آسمان پہ چھایا نہ کیجئے |
| کاخِ جبینِ یار سے آئی ہے التجا |
| سوچا نہ کیجئے ہمیں دیکھا نہ کیجئے |
| عشوہ کریں ہیں سامنے وہ روز روز ہی |
| اس پر گلہ ہمیں سے یوں آیا نہ کیجئے |
| راتوں کے خوف میں وہ کہے تھے یہ ایک دن |
| تارو یوں آسمان پہ چھایا نہ کیجئے |
معلومات