| قافلہ عرشِ بریں سے ایسا اترا نور کا |
| بھاگتی پھرتی ہے ظلمت لے کے خطرہ نور کا |
| مشرق و مغرب میں پھیلے تھے اندھیرے کفر کے |
| پھر یکایک مطلعِ انوار ابھرا نور کا |
| تیرے صدقے میرے ساقی ایک چھینٹا نور کا |
| تیرے قرباں ڈال دے بس ایک قطرہ نور کا |
| تیری نسلِ پاک سے چھنتی ہیں کرنیں نور کی |
| آدم و مہدی تلک ہے تیرا شجرہ نور کا |
| ہیں ہدایت میں ترے اصحاب تارے نور کے |
| تیری امت کے لئے عترت ہے بجرا نور کا |
| پیش کرتے ہیں سلاموں کے ترانے جھوم کر |
| گوند کر لائے درودوں میں ہیں گجرا نور کا |
| دستِ سرکارِ دو عالم عین دستِ ذوالجلال |
| مَا رَمَیْتَا اِذْ رَمَیْتَا کس پہ ٹھہرا نور کا |
| سب کی رنگ و نور و نکہت کل چمن سے مٹ گئیں |
| روپ تیرے عارضِ انور پہ گہرا نور کا |
| ایک لمحے کو نظر خیرہ تجلی سے ہوئی |
| وہ براقِ سیدِ عالم جو گزرا نور کا |
| شکر کرنا ربِّ دو عالم کا واجب ہو گیا |
| جس نے اندھوں کو دکھایا ان کا چہرہ نور کا |
| نور کی مدحت سرائی کس کے بس کی بات ہے |
| معرفت پر نور والا کی ہے پہرہ نور کا |
| خالی ہاتھوں میں بھرے ہیں لاکھوں چشمے نور کے |
| نور کے ماتھے بندھا ہے جامیؔ سہرا نور کا |
معلومات