ایسی تھیں مشکلیں جو کوئی حل نہ کر سکا
تھی دھوپ سر پہ تیز وہ آنچل نہ کر سکا
پیاسی زمینِ دل نے گزارش تو کی مگر
کم تشنگی کو مستیِ بادل نہ کر سکا
جذبات اشک بن خطِ مژگاں سے گر پڑے
پلکوں سے جذب اشک، یہ کاجل نہ کر سکا
آسان کر دیا کرے سب کام اوروں کا
اپنی تو الجھنوں کو کبھی حل نہ کر سکا
اپنی خوشی نہیں مگر اپنوں ہی کے لئے
کرنا پڑا ہے آج جسے کل نہ کر سکا
خدمت کبھی نہ کی، میں جو اک بد نصیب ہوں
قربان والدین پہ اک پل نہ کر سکا
اتنا ہے خوفِ جان کہ سب قتل دیکھ کر
اقرار کوئی شاہدِ مقتل نہ کر سکا

0
41