| بچھڑا ہے تو آنکھوں سے، نکلتا بھی نہیں ہے |
| یہ درد کوئی خواب، بدلتا بھی نہیں ہے |
| اک عمر ہوئی دل کو ، تسلّی نہیں ہوتی |
| وہ زخم کہ جو وقت، کھرچتا بھی نہیں ہے |
| ہر شخص حقیقت میں، شناسا بھی نہیں ہے |
| ہر چہرہ تو آئینے میں، دکھتا بھی نہیں ہے |
| آ جاتی ہیں یادیں بھی، سرِ شام اتر کر |
| یہ دل کہ کسی طور، بہلتا بھی نہیں ہے |
| کیسا یہ ستم ہے کہ، سحر بھی نہیں ہوتی |
| اور رات کا سایہ ہے، سمٹتا بھی نہیں ہے |
| احساس کی دہلیز پہ، دستک تو ہے دیتا |
| وہ شخص جو پہچان، کراتا بھی نہیں ہے |
| سوچا ہے کہ اب ترک تعلق ہی کریں ہم |
| پر دل ہے کہ اس راہ پہ چلتا بھی نہیں ہے |
معلومات