مرشدِ کامل کا چہرہ ہم دل میں چھپائے رہتے ہیں |
پھر بھی اس در پر آنے کی آس لگائے رہتے ہیں |
جس کو وہ چاہیں اس کو بلا لیں عرس میں اپنی مرضی سے |
اپنے ارادے بنتے بگڑتے پھر بھی بنائے رہتے ہیں |
شاہ نصیر و نظام و قطب کے در سے فیض اٹھانے کا |
سنگ تمہارے اخیر سفر وہ یہ نین بسائے رہتے ہیں |
لطف و عنایت و جود و کرم سے کر دو روشن ذہن و دل |
ذہن میں ہم تو آشاؤں کے دیپ سجائے رہتے ہیں |
معلومات