مرشدِ کامل کا چہرہ ہم دل میں چھپائے رہتے ہیں |
پھر بھی اس در پر آنے کی آس لگائے رہتے ہیں |
جس کو وہ چاہیں در پہ بلا لیں یہ بات ہے ان کی مرضی کی |
اپنے ارادے بنتے بگڑتے پھر بھی بنائے رہتے ہیں |
تخت نشینی جلوہ گری وہ وعظ و نصیحت ہجرے یہ |
سنتے سناتے اُس محفل کی یاد دلائے رہتے ہیں |
محبوبِ رب و غوثِ اعظم خواجہ پیا و گنجِ شکر |
ہم تو اِنہیں کے طفیل دعا میں ہاتھ اٹھائے رہتے ہیں |
شاہ نصیر و نظام و قطب کے در پہ اخیر سفر اِن کا |
سنگ اِنہیں کے اخیر سفر وہ یہ نین بسائے رہتے ہیں |
لطف و عنایت و جود و کرم سے کر دو روشن ذہن و دل |
ذہن میں ہم تو بِن لَو کے ہی دیپ سجائے رہتے ہیں |
آج مبارک آمدِ مرشد سارے عقیدت مندوں کو |
عقل کسی کی مانے نہ مانے وہ بزم میں آئے رہتے ہیں |
کس کو پکاریں کس کو سنائیں اپنا دکھڑا ان کے سوا |
غیر تو غیر ہیں اب اپنے بھی بن کے پرائے رہتے ہیں |
ماہِ وصال گیارھویں کا تاریخِ وصال گیارھویں ہی |
گھنٹے منٹ بھی گیارھویں کے فکر پہ چھائے رہتے ہیں |
ظرفِ مقدر تنگ بہت ہے خاک اٹھا کر چوم ضیا |
اِس تربت کی خاک پہ بھی تو پیر کے سائے رہتے ہیں |
معلومات