چاند چھپتا ہے کہیں رات گہن جلتا ہے
دیپ بجھتے ہیں کہیں من کا چمن جلتا ہے
جاگتی دیر تلک ہے مری بانہوں میں شب
بحر حسرت کا سرابوں میں مگن جلتا ہے
شام ڈھلتی ہے محبت کی جھکی پلکوں میں
دل کی دھڑکن میں ستاروں کا کفن جلتا ہے
کون لیتا ہے خبر جگ میں لگے زخموں کی
نوک خنجر سے چھدا دکھ میں بدن جلتا ہے
یار نے ہاتھ رکھا تھا جہاں پر الفت سے
آج بھی اس کے خیالوں میں سجن جلتا ہے
اوڑھ کے خاک نصیبوں کی لکھی قسمت میں
ریت صحرا کی لئے راہ کٹھن جلتا ہے
اب اندھیرا نہ کبھی ہو گا زمیں پر شاہد
آس میں روز تھکا چرخ کہن جلتا ہے

0
39