اور پلکوں کو جگایا نہیں جاتا ہم سے
سر ترے در پہ جھکایا نہیں جاتا ہم سے
نقش ہر روز مٹاتے ہیں خیالوں سے ہم
تو مگر پھر بھی بھلایا نہیں جاتا ہم سے
اشک خاموش ٹپکتے ہیں تمہارے غم میں
زخم الفت کا دکھایا نہیں جاتا ہم سے
مانی جاتی نہیں شرطیں بھی گلابوں کی اب
رنگ ہونٹوں کا چرایا نہیں جاتا ہم سے
گپ اندھیروں میں ہی کر لیں گے سفر صحرا کا
تیرا احسان اٹھایا نہیں جاتا ہم سے
پھرتے ہیں دید کی حسرت لیے دل میں لیکن
رقص زنجیر سجایا نہیں جاتا ہم سے
سب چراغوں کو ہی سر شام بجھا دیتے ہیں
یار کا ہجر منایا نہیں جاتا ہم سے
نام ساحل پہ لکھا کرتی ہیں کچھ موجوں پر
لفظوں کو ریت پہ ڈھایا نہیں جاتا ہم سے
کیوں چلے آتے ہو ہر شب ہی ستانے شاہد
تم تو کہتے تھے کہ آیا نہیں جاتا ہم سے

0
35