| عمر بھر میں خود سے خفا رہا |
| سارے اپنے آنسو چھپا رہا |
| ترک سے تعلق کی طرح اک |
| نیند سے میں ہر شب جدا رہا |
| زندگی بسر کرنے کے لیے |
| عمر بھر میں خود کو تھکا رہا |
| تمہیں کیوں ہو معلوم رنجِ عشق |
| واسطہ تمہارا کہاں رہا |
| اک یہیں کہیں سے ہے چیخ اٹھی |
| کوئی شور مجھ میں مچا رہا |
| جس دیے پہ مجھ کو غرور تھا |
| وہ ہی میرے گھر کو جلا رہا |
| پردہ ہستی سے میں یوں ہٹ رہا |
| کے میں خود ہی خود کو مٹا رہا |
معلومات