بوئے گل خود پہ ناز کرتی ہے
زلف کے ساتھ جب بکھرتی ہے
شام کے وقت یاد کر کے مجھے
پیشِ آئینہ وہ سنورتی ہے
لاکھ ارمان ہوں کسی دل میں
زندگانی کہاں ٹھہرتی ہے
زندگی سہل ہے کہاں اتنی
بس تری یاد میں گزرتی ہے
سارے کانٹے گلاب لگتے ہیں
نیند جب آنکھ میں اُترتی ہے

0
4