وہ آ نہ پائے زندگی میں زندگی بے جان ہے
اداس اداس ہیں یہ آنکھیں جان بھی بے جان ہے
یہ طوفاں کے تھپیڑے جانے اب کدھر لے جائیں گے
وہ دھندلے کنارے نظروں کو نظر کب آئیں گے
اب آگے کیسے بڑھ چلیں یہ ناؤ بھی بے جان ہے
لچکنے لگتی نرم شاخیں سن کے اس کی آہٹیں
بکھرنے لگتی ہر طرف حسین مسکراہٹیں
صبا تو اب خموش ہے کلی کلی بے جان ہے
بہت ہیں سارے حسن والے ان میں وہ کشش کہاں
جو بزم کی بڑھا ئے تشنگی وہ اب تپش کہاں
اِدھر ادھر سے آ رہی یہ روشنی بے جان ہے

0
56