| یہ آنکھ نہیں آپ کے دیدار کے قابل |
| اور جسم نہیں آپ کے دربار کے قابل |
| یہ کیسے کہوں آپ سے اک دست تسلی |
| رکھ دیجئے کے دل نہیں اس داد کے قابل |
| اتنے ہو کریم آپ کہ ڈھارس ہےبندھائی |
| ورنہ تو کہاں عرض ہے فریاد کے قابل |
| دنیا کے امیروں سے جو رکھتا میں طلب تو |
| جھڑکی یہی ہوتی نہیں امداد کے قابل |
| ہم جیسوں کو آقا نہیں ملتی کوئی جا بھی |
| یہ تیرا کرم ہےکہ ہیں اسناد کے قابل |
| تم ہو تو بنی بات سرِ حشر ہماری |
| ورنہ تو کہا ں تھے شہا ہم شاد کے قابل |
| امت سے محبت ہے یہ ذیشان نبی کی |
| کیا گن تھے کہ ہوتے ہم ان اوراد کے قابل |
معلومات