| کبھی جو عشق کی دنیا سے ہم کشاں گزرے |
| وہی وہ آئے نظر ہم جہاں جہاں گزرے |
| وہ ہم میں آئے نظر اور ان میں ہم آئے |
| "معاملات کچھ ایسے بھی درمیاں گزرے" |
| بسے ہوئے تھے اسی پردے میں وہ پردہ نشیں |
| ہم ان کی دید کی خاطر کہاں کہاں گزرے |
| پتے ہوئے ہیں سبھی لا پتہ وہ جب سے ملے |
| مکاں سے ان کے جو گزرے تو بے مکاں گزرے |
| وجودِ عرش پہ کرسی لگائے بیٹھے ہو |
| نشاں کو تیرے جو پہنچے وہ بے نشاں گزرے |
| جہاں پہ رہتے ہو گزرے نہیں وہاں کوئی |
| یہاں سے گزرے تو ہم دے کے اپنی جاں گزرے |
| گزر کے عشق سے تو بھی ذکیؔ جنوں ہو جا |
| کہ ان ہی راستوں سے سارے قدسیاں گزرے |
معلومات