| ستم گر تیرے انداز، خفا ہےبھلا کب تک |
| مگر کیوں دلِ ناداں تجھے چاہے ہے اب تک |
| تیرے کوچے میں ہر روز بھٹکتا ہوں مگر |
| تیرے در کی طرف آنکھ بھی اٹھائے ہے اب تک |
| تیری زلفوں کی صورت میں اندھیرا ہے مگر |
| دلِ دیوانہ تیرا ہی اجالا پائے ہے اب تک |
| تیری باتوں میں زہر و شر کا ہے امتزاج |
| مگر یہ دلِ ناداں تجھے چاہے ہے اب تک |
| تیری یادوں کے طوفاں میں الجھا ہے مگر |
| کاشف کو کوئی زور سے کھینچے ہے اب تک |
معلومات