| رشتہ نرالا دیکھا دیپک کا تیرگی سے |
| چاہے شگفتگی سے یا دل گرفتگی سے |
| آسودہ ہے نہ کوئی اس عہدِ زندگی سے |
| خوشیوں کی تشنگی سے غم کی کشادگی سے |
| اس جسمِ خاک میں ہے رہبر بھی راہزن بھی |
| ڈوبا کوئی بدی میں نیکی کی بندگی سے |
| دل جوش میں ہے رہتا بجھتا نہیں کبھی وہ |
| آباد ہے جو ہر دم ، اللہ کی بندگی سے |
| آؤ کہ اب سنواریں اپنے نصیبِ خفتہ |
| مانگیں ندامتوں میں دلکی ادائیگی سے |
| وہ تو نوازتا ہے شاہ و گدا سبھی کو |
| مانگو اگر خدا سے تو مانگو شستگی سے |
| جو مل گیا خدا سے اس پر شکر ادا ہو |
| درماندگی میں ارشدؔ کیا خوف زندگی سے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات